یہ 1980 کی ایک صبح کے چار بجے کا وقت تھا
آج مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ ٹرین کا سفر کرنا تھا-
میں شادی کے بعد کچھ دن سرگودھا رکنے کے بعد اب پہلی مرتبہ سرتاج کے ساتھ راولپنڈی جارہی تھی۔
امی ہمارا کھانا پیک کرتے ہوئے مسلسل آنسو بہارہی تھیں
خالہ جمشید بھی گاؤں سے سرگودھا آئی ہوئی تھیں تا کہ دلہن کے ساتھ بھیجنے کے لئے دیسی گھی کی شیرینی گھر پر تیار کر سکیں۔
سچی بات کروں تو مجھے کوئی خاص رونا نہیں آرہا تھا۔ کوئی 20 دن پہلے شادی ہوئی تھی اور اب اپنے گھر سسرال والوں کے پاس راولپنڈی جارہی تھی۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ امی کیوں روئے جارہی تھیں۔
خیر۔۔۔ سسرال پہنچنے کے اگلے تین دنوں میں علم ہو گیا تھا کہ امی کیوں رو رہی تھیں۔
ان دنوں فیصل آباد سے دھماکہ(ٹرین کا نام) سرگودھا سے سواریاں لیتے ہوئے لالہ موسیٰ، ملکوال جنکشن، دینہ، جہلم سے ہوتے ہوئے راستے میں دو چھوٹی سرنگوں سے گزرتے ہوئے دن کے اڑھائی بجے راولپنڈی پہنچاتی تھی۔
یہ سفر کم و بیش نو گھنٹوں پر محیط ہوتا تھا۔
جب ہم گھر سے نکلے تو فجر کی ازانیں ہورہی تھیں
شمع سنیما کراس کیا تو ریلوے روڈ پر ہوٹل کھلے ہوئے تھے اور وہاں زیادہ تر مزدور لوگ یا قلی وغیرہ ناشتہ کرنے میں مصروف تھے
پلیٹ فارم پر اندر جانے کے لیے ایک ٹکٹ لینا ہوتا تھا جو کہ بلا کسی تخصیص کے ہر ایک نے لازمی خریدنا ہوتا تھا۔
ریلوے اسٹیشن پہنچ کر ایک نیا ہی جہاں آباد دیکھا۔
ڈھیروں ڈھیر پٹڑیاں تھیں۔ اگر ان پٹڑیوں کی دوسری طرف جانا ہوتا تو بہت ساری سیڑھیاں طے کر کے اوپر ایک پُل پر جا پہنچتے اور پھر پُل کے اوپر ، اوپر چلتے ہوئے تمام پٹڑیاں پار کر کے دوسری طرف جا اترتے۔
پلیٹ فارم پر تازہ اخبار، فلمی رسالے، خواتین کے رسائل کے سٹال، گرما گرم ناشتہ، چائے وغیرہ لوگ ہاتھوں ہاتھ خرید رہے تھے۔
قلی اپنی مخصوص وردی میں لوگوں کا سامان اٹھا کر بھاگ بھاگ کر پٹڑی کے قریب پہنچا رہے تھے

میں نے ٹرین میں خواتین کی الگ بوگی میں سفر کرنا تھا۔
تھوڑی دیر میں ہی مجھے میری سیٹ مل گئی۔
سرتاج دوسرے ڈبے میں تھے۔
امی نے بہت اچھی طرح سمجھا کر ٹرین میں بٹھایا کہ راستے میں کسی سے کچھ لے کر نہیں کھانا، چاہے سفر خواتین کے ڈبے میں ہی کرنا تھا لیکن راستے میں منہ سے نقاب نہیں اٹھانا
کسی کے سامان کی زمہ داری مت لینا۔۔
بھائی اظہر نے میری سیٹ کے اوپر والی برتھ پر میرا بستر سرہانہ وغیرہ سیٹ کر دیا۔
میں اچھی خاصی پر اشتیاق تھی کہ راستے میں رسالے پڑھوں گی، امی نے جو قیمہ پراٹھا بنا کر دیا یے وہ کھاؤں گی۔۔ مالٹے اور ان پر لگانے کے لیے نمک مرچ میں نے پہلے ہی بیگ میں رکھ لیے تھے۔
امی ہر تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی نصیحت کررہی تھیں۔
بہن اداس تھی لیکن پورے کمرے پر اپنے اکیلی کا قبضہ کرنے کا سوچ سوچ کر خوش بھی تھی۔
اچانک ریل نے سیٹی بجائی۔
ہمارا گھر ریلوے اسٹیشن کے قریب ہونے کی وجہ سے اکثر ریل کی روانگی کے وقت سیٹی کی آواز سنائی دیا کرتی تھی۔
لیکن آج اس سیٹی میں کوئی عجیب ہی درد اور جدائی کا اشارہ تھا
بھائی اظہر نے میرے سر پر پیار کیا خط لکھنے کا کہا اور بھاگتے ہوئے ٹرین سے اتر گیا۔
کھڑکی سے باہر جھانکا تو ملجگے اندھیرے میں بھی امی کے آنکھوں میں آنسو نظر آرہے تھے۔
مجھے میری شادی پر سکھیوں کا گایا یوا وہ لوک گیت یاد آرہا تھا
ٹُٹ جائے گڈی دا پہیہ
جیہڑی لے سجناں نوں گئی آ
مجھے اپنے گھر کا کشادہ صحن یاد آرہا تھا جس میں سردیوں کی دھوپ میں عصر کے وقت ابا دفتر سے آکر شام کی چائے پی رہے ہوتے تھے، تب تو ابا کو مرحوم ہوئے بھی سال ہو چکا تھا۔۔ ہم بہن بھائی لڈو کھیلنے میں مصروف ہوتے تھے، امی سالن کو دم پر لگا کر خود اون سلائیوں میں الجھی ہوتی تھیں۔
میں نے کھڑکی سے سر ٹکایا اور بلک بلک کر رو پڑی۔
(دوسرا حصہ)
جلد ہی ٹرین نے رفتار پکڑلی۔
ادھر میرے آنسوؤں نے بھی رفتار پکڑلی۔آنسوؤں بھری آنکھوں سے باہر دیکھا تو
اب یوں لگ رہا تھا کہ ٹرین نہیں بھاگ رہی بلکہ ٹرین سے باہر کھیت، درخت، گاؤں کے کچے پکے گھر پیچھے کو بھاگ رہے ہیں۔
کچھ دیر رونے کے بعد سوچا کہ مجھے دلاسے دینے والی ماں اب پیچھے رہ گئی ہے اور میرے آنسو پونچھنے والے ہاتھ اب مجھ سے دور ہیں۔۔ اپنے دل سے کہا
“جھلیا دِلا۔۔۔ اب کون ہے جو دلاسے دے،، ڈبے میں نگاہ دوڑائی تو لگا کہ اج سارے سرگودھا کی خواتین ہی پنڈی جانے کے لیے ڈبے میں سوار ہیں۔
سب خواتین اپنے آپ میں مگن۔۔۔
کوئی سامان سیٹ کررہی تھی تو کسی کے بچے رورہے تھے۔۔
جن خواتین نے مٹھہ لک اترنا تھا وہ بوگی کے دروازے کے قریب، قریب رہنے کی کوشش کررہی تھیں تا کہ جلدی سے اتر سکیں۔ برقعے کے اندر میرے آنسوؤں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں مٹھہ لک کے قریب اجنالہ کا بورڈ نظر آیا۔
آہ ۔۔۔ میرا ننھیال۔۔میری یادیں۔۔ میری سہیلیاں ،
ضرور اپنی ماؤں کے بستر میں ان کے سینوں پر سر رکھے لاڈ کررہی ہوں گی
آنسو پھر سے بہ کر گریبان کو گیلا کر رہے تھے
رونے سے دل کچھ ہلکا کر چکی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ میرے ساتھ والی سیٹ پر امی کی دوست کی بیٹی باجی فریدہ بیٹھی ہوئی تھیں۔
ان سے بات کرنے کا دل چاہ رہا تھا لیکن امی نے کہا تھا کہ نقاب منہ سے نہیں اٹھانا اور نقاب کے اندر سے بات کرنے کو میرا دل نہیں مان رہا تھا۔

اب باہر روشنی پھیلنا شروع ہو چکی تھی۔ٹرین بھی کچھ آہستہ ہو رہی تھی۔
تھوڑی دیر میں ٹرین رک گئی
اس سٹاپ سے تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلے پر میرا ننھیالی گاوں تھا۔۔33 شمالی۔۔۔دور چمنیوں سے دھواں نکل رہا تھا۔۔فضا میں دیسی گھی کے پراٹھوں کی خوشبو محسوس ہورہی تھی۔۔میں تصور کی انکھ سے ممانی کو لسی سے مکھن نکالتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔ماموں کا بیٹا اپنی دادی (میری نانی)کی گود میں بیٹھ کر ابلا ہوا انڈہ کھارہا تھا۔۔اور ماموں اپنے کماد کی فصل پر جانے کے لئے گرگابیاں پہن رہے تھے۔۔ہائے یہ یادیں۔۔۔
چند منٹ میں ہی ڈبہ کافی حد تک خالی نظر انا شروع ہو گیا۔
سردیوں کی دھوپ میں کنوؤں کو دور سے دیکھنا بھی ایک عیاشی ہے۔ اس چند منٹ کی بے ایمان خوشبو پر بندے کا ایمان ڈول جاتا ہے۔دل چاہ رہا تھا کہ چھلانگ لگا کر بھاگتی ہوئی جاؤں اور بہت سارے کھٹے، میٹھے کنو توڑ کر لے آؤں۔پرس میں موجود مالٹوں کو ہاتھ مار کر تسلی کی کہ یہ یہاں موجود ہیں۔
ہری جھنڈی دیکھنے کے بعد ٹرین کے ڈرائیور نے سیٹی بجائی ادھر ادھر بکھرے ہوئے لوگ اپنی اپنی جگہوں پر آگئے۔
ٹکٹ چیکر آکر لوگوں کی ٹکٹیں چیک کررہا تھا۔بھائی نے بتایا تھا کہ ٹکٹ سامنے سامنے رکھنا تا کہ چیک کروانے میں آسانی رہے۔
اب ڈبے میں صبح کی ہلچل شروع ہو چکی تھی خواتین ناشتے کا سامان نکال رہی تھیں کچھ خواتین کے فلاسک میں گھر سے لائی ہوئی چائے موجود تھی۔۔ اس وقت بوگی میں موجود خواتین ایک ہی گھرانے جیسی لگ رہی۔ایک دوسرے کو کھانے پینے کا سامان دے رہی تھیں۔
کچھ خواتین بچوں کو واش روم لے کر جارہی تھیں جونہی واش روم کا دروازہ کھلتا ٹرین کی اواز مزید زور دار ہوجاتی اور تیز ہوا کے جھونکے آتے۔ اب ٹرین کی آواز اور رفتار میں ایک ہم آہنگی اچکی تھی۔
میں سوچ رہی تھی پتہ نہیں راولپنڈی والا گھر کیسا ہوگا؟؟
نئی سہیلیاں بن پائیں گی یا نہیں؟
حالانکہ دوستی تو وہی ہوتی ہے جو بچپن میں ہو جاتی ہے جب نہ مفادات کا لالچ ہوتا ہے نہ سٹیٹس کی فکر۔۔۔ بچپن کے بعد کی دوستیاں تو محض سمجھوتے ہوتے ہیں۔
ابا کے گھر تو دائیں، بائیں ساری سہیلیوں سے روز ملاقات ہوتی تھی۔ خالہ عصمت اکثر اپنی سبزی کی ٹوکری سمیت امی کے برآمدے میں بیٹھ کر گپ شپ کے دوران سبزی تیار کر لیتی تھیں اور ہم سہیلیاں اپنی گڑیوں کے معاملات سلجھا لیتی تھیں، کبھی سکول کا کام مل کر، کر لیا کرتی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں صحن میں لگی کڑوی دھریک کے میٹھے سائے میں بیٹھ کر قلم دوات سے ایک دوسرے کی چراغ روشنائی والی دوات سے ڈوبے لگا لگا کر تختی لکھا کرتے تھے۔کچھ بڑی ہوئیں تو اپنی، اپنی ماؤں سے چھپ کر رسالے پڑھتے تھے اور قسط وار افسانوں کی ہیروئین کے دکھ آپس میں بانٹا کرتے تھے۔
اگلا سٹاپ ملکوال جنکشن کا تھا۔۔اس کے بعد لالہ موسیٰ تھا اور وہاں پہنچنے تک میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہورہی تھیں۔ قیمہ پراٹھا کا ناشتہ کیا اور اوپر برتھ پر چڑھ گئی اور لیٹتے ہی فوراً سو گئی۔
شائد جہلم کا سٹاپ تھا جب ایک تیز کٹیلی آواز میں” کراری چنا چاٹ، کراری چنا چاٹ،، کی صدا سے میری انکھ کھل گئی۔
بعد میں بھی ہمیشہ سفر کے دوران دینہ اور جہلم کے درمیان اس چاٹ والے کی مزیدار چاٹ کا انتظار رہتا تھا۔
سرتاج پھر حاضر تھے” کچھ چاہیے ہے تو بتا دو،،
یہ ہمارے زمانے کی خواتین کی نئی نئی شادی میں یہی شوہر حضرات کی طرف سے لاڈ ہوتے ہیں جن کے مان پر عورت بقایا پوری زندگی گزار دیتی تھی
فریدہ باجی نے سرتاج کو غور سے دیکھا اور کہا
” ہا، اے انا چھوٹا تیرا بندہ…! اے تے ساڈے پپو توں وی چھوٹا اے،،
میں دل ہی دل میں باجی سے ناراض ہو گئی کیونکہ جب آخری مرتبہ پپو کو دیکھا تھا تو اس کی ماں سے اس کی اس بات پر پٹائی ہورہی تھی کہ اس نے ماں کی غیر موجودگی میں گھر کے سارے گندے کپڑے واشنگ مشین میں ڈال کر مشین چلادی تھی۔۔اور مشین میں پانی بھی نہیں ڈالا تھا۔۔۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد پپو کو دیکھا تو اب وہ لفٹین (سیکنڈ لفٹیننٹ) کی وردی میں تھا۔ اور اچانک چھٹی پر بہن کے ساتھ گھر جارہا تھا۔
یعنی پپو اب اتنا بھی پپو نہیں تھا۔
اب ایک مرتبہ پھر باوردی ٹکٹ چیکر ڈبے میں ٹکٹ چیک کرنے کے لیے موجود تھا
تھوڑی دیر میں کراسنگ کے لیے ٹرین رکی تو معلوم ہوا کہ جب ایک ہی ٹائم دو ٹرینیں آمنے سامنے آتی ہیں تو ایک ٹرین کو روک دوسری کو کراس کرنے کا موقعہ دیا جاتا ہے تو اب ہماری ٹرین رک کر دوسری کو گزرنے کا موقعہ دے رہی تھی۔
1 بجے تک میں پراٹھے، چنا چاٹ، مالٹے سب کچھ کھا پی چکی تھی۔اور اب دوپہر کا کھانا گھر جا کر کھانا تھا۔
2 بجے ٹرین نے پنڈی پہنچایا۔
گھر پہنچنے کے بعد بھی رات تک کانوں میں ٹرین کے پہیوں کی چھک چھک کی آوازیں آتی رہیں۔
نیا شہر، نئے لوگ، گرم جوشی سے نئے گھر میں استقبال سب کچھ بہت اچھا تھا لیکن ابا کے گھر جیسا نہیں تھا۔
ایک دن پھوپھو نے باتوں، باتوں میں کہا کہ ہم نے تو تمہاری ماں کو بہت منع کیا تھا کہ تمہیں جہیز نہ دیں۔۔ہمارا ایک ہی تو بیٹا ہے۔۔ہمارا سب کچھ تم دونوں کا ہے۔۔ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں لیکن تمہاری امی نے اپنے سونے کے کنگن دے کر ان کے بدلے تمہاری پسند کا تمہارا سونے کا سیٹ بنوایا ہے، اور اگلے تین سال وہ کمیٹیاں ادا کریں گی جن سے تمہارا فرنیچر اور باقی سامان تیار ہوا. اور پھوپھو کہ رہی تھیں کہ میرے بھائی کی بہت خواہش تھی کہ وہ اپنا گھر بنا سکتا لیکن موت نے اسے مہلت ہی نہ دی۔۔”ہائے میرا ویر۔۔دل کی دل میں ہی لے کر اللہ کے پاس چلا گیا ،،
لیکن ہمارے سامبے تو ابا نے یا امی نے کبھی کوئی دکھ کا اظہار نہیں کیا۔ نہ کبھی کسی مالی پریشانی کا زکر کیا،
میں تو ہمیشہ اپنے باپ کو ایک بادشاہ اور اپنے اپ کو باپ کی شہزادی سمجھتی تھی۔پھوپھو کی باتوں سے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ ہمارے والدین نہ جانے اپنی کتنی ضروریات اور خواہشات کو پس پشت ڈال کر ہماری خوشیوں کا اہتمام کرتے تھے۔۔اب ان کےلیے دل دکھ سے بھر گیا تھا۔ ایک مہینہ بعد بھائی مجھے لینے پنڈی ائے تو میں سوچ رہی تھی۔۔
۔”گھر کی اس بار مکمل میں تلاشی لوں گا
غم چھپا کر مرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے،،
ختم شد۔
روبینہ قریشی ۔۔31 مئی 2023